ٹوکیو سنہ 2011ءمیں سونامی آنے سے جاپان کے شہر فوکوشیما کے قریب واقع نیوکلیئر پاور پلانٹ کو شدید نقصان پہنچا۔اس سے خوفناک تابکاری علاقے میں پھیل گئی اور ڈیڑھ لاکھ سے زائد لوگ علاقہ چھوڑ کر محفوظ جگہوں پر جانے پر مجبور ہو ئے ۔ اب اگرچہ زیادہ تر لوگ اپنے گھروں کو واپس آ چکے ہیں تاہم 400مربع کلومیٹر کا علاقہ اب بھی غیرآباد ہے اورسائنسدانوں کے خیال میں اس علاقے میں اب بھی تابکاری کی شرح خطرناک حد تک زیادہ ہو سکتی ہے جس میں انسان نہیں رہ سکتے۔ دی سن کے مطابق اب اس علاقے میں تابکاری کا لیول جانچنے کے لیے سائنسدانوں نے سانپوں کا استعمال کیا ہے۔ انہوں نے درجنوں سانپ پکڑ کر ان کے جسموں کے ساتھ تابکاری ناپنے والے ’ڈوسی میٹر‘ اور جی پی ایس ٹریکٹر نصب کرکے انہیں اس 400مربع کلومیٹر کے علاقے میں چھوڑ دیا ہے۔ یہ تحقیق کرنے والی ٹیم کی رکن پروفیسر ہینا گیرک کا کہنا ہے کہ ”کئی ایکوسسٹمز میں سانپ ناگزیر ہوتے ہیں کیونکہ یہ شکاری بھی ہوتے ہیں اور شکار بھی۔ “ رپورٹ کے مطابق سائنسدانوں نے اس تحقیق کے لیے جو سانپ پکڑے ان میں زیادہ تر ’ریٹ سنیک‘ (Rat snake)ہیں۔ ان کے جسموں کے ساتھ ڈکٹ ٹیپ کے ساتھ ڈوسی میٹر اور جی پی ایس ٹریکٹر لگائے گئے ہیں۔ ان میں سے کچھ سانپ پلانٹ کے اس علاقے سے باہر چھوڑے گئے جہاں انسانوں کا جانا ممنوع ہے جبکہ کچھ سانپ اس علاقے میں کچھ کلومیٹر اندر چھوڑے گئے۔ اس علاقے کے اندر چھوڑے گئے سانپوں پر لگے میٹرز سے معلوم ہوا کہ وہاں تابکاری باہر موجود سانپوں کے ماحول کی نسبت 22گنا زیادہ ہے۔پروفیسر ہینا گیرک کا کہنا ہے کہ ”2011ءمیں حادثے کے بعد تابکاری اتنی زیادہ تھی کہ انسان اس علاقے میں زندہ بھی نہیں رہ سکتا تھا۔ا س کی نسبت اب تابکاری کا لیول انتہائی کم ہو چکا ہے تاہم اب بھی یہ انسانوں کے لیے بہت خطرناک ہو سکتا ہے۔ بہرحال ہم سانپوں کو مسلسل مانیٹر کر رہے ہیں اوراس تحقیق کے حتمی نتائج میں ہی معلوم ہوسکے گا کہ اس علاقے میں انسان جا سکتے ہیں یا نہیں۔سانپوں کے بعد دیگر ممالیہ جانوروں کو ان تجربات میں شامل کیا جائے گا اور معلوم کیا جائے گا کہ ایکوسسٹم کے لیے ناگزیر جانور اس ماحول میں زندہ رہ سکتے ہیں یا نہیں۔“
148