لاہور میں دو روز قبل اینٹی نارکوٹکس فورس (اے این ایف) نے لاہور پولیس کے منشیات کے خلاف بنائے گئے سیل پر چھاپہ مارا اور دو اہلکاروں کو حراست میں لے لیا۔
دوسری جانب پولیس کے انسداد منشیات ونگ کے انچارج ڈی ایس پی مظہر اقبال تاحال روپوش ہیں۔
اے این ایف نے پولیس کے افسران اور اہلکاروں پر منشیات کا کاروبار کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے ایف آئی آر درج کر لی ہے۔
اے این ایف کی درج کردہ ایف آئی آر کے مطابق ڈی ایس پی مظہر اقبال کافی عرصے سے منشیات کا کاروبار کر رہے تھے اور ان کے ٹھکانے پر ریڈ کیا گیا جہاں سے بھاری مقدار میں آئس اور دیگر منشیات قبضے میں لے لی گئیں۔
تاہم یہ بات اتنی بھی سادہ نہیں ہے۔ لاہور پولیس کے ایک اعلٰی افسر نے اُردو نیوز کو نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’ڈی ایس پی ایک ایسے گینگ کے پیچھے لگے ہوئے تھے جو بڑے پیمانے پر آئس کا کاروبار کرتا تھا۔‘
’اس گروہ کے دو افراد کو ایک چھاپے کے دوران گرفتار کیا گیا۔ اسی دوران اے این ایف کی ایک ٹیم بھی اسی گینگ کا پیچھا کر رہی تھی، تاہم گینگ کے دو ارکان کے غائب ہونے کے باعث وہ بند گلی میں چلے گئے۔‘
انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے بتایا کہ ’اس دوران ڈی ایس پی کے خلاف یہ الزام سامنے آیا کہ وہ گینگ سے خود لین دین کر رہے تھے، تاہم گرفتار ملزمان نے کسی طریقے سے اس بارگین میں اپنے فون آن کروائے جس سے ان کی لوکیشن کی نشاندہی ہو گئی۔‘
سی آئی اے پولیس اور اے این ایف نے پہلے اقبال ٹاؤن کے علاقے کی لوکیشن کو استعمال کرتے ہوئے ریڈ کیا تو تھانہ گلشن راوی کی دوسری منزل پر قائم پولیس کے این آئی یو (اینٹی نارکوٹکس یونٹ) تک یہ ٹیمیں پہنچ گئیں۔ ڈی ایس پی تو موقع سے فرار ہو گئے البتہ ایک ملزم کو گرفتار کر کے منشیات کو قبضہ میں لے لیا گیا۔‘
ڈی ایس پی پر یہ الزام بھی ہے کہ انہوں نے اس گینگ سے سات کٖروڑ روپے بھی لیے جو ریکور کر لیے گئے، البتہ ان پیسوں کا ذکر ایف آئی آر میں نہیں ہے۔
لاہور میں سی آئی اے پولیس کے سربراہ کیپٹن (ریٹائرڈ) لیاقت سے جب اس حوالے سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ’یہ ریڈ بنیادی طور پر اے این ایف نے کیا تھا اس لیے میں اس موضوع پر بات نہیں کر سکتا۔ جو بھی الزامات عائد کیے گئے ہیں ان کا فیصلہ عدالت کرے گی۔‘
حال ہی میں لاہور پولیس کے آپریشن ڈیپارٹمنٹ نے تین ایس پیز پر کروڑوں روپے رشوت کے عوض ہاؤسنگ سوسائٹیوں پر قبضے کروانے کا الزام عائد کیا اور ان افسران کو ان کے عہدوں سے ہٹانے کے لیے ایک رپورٹ بھی مرتب کی۔
یہ رپورٹ لاہور پولیس چیف اور آئی جی پنجاب کو بھیجی گئی ہے۔ رپورٹ کے مندرجات کے مطابق تین ایس پیز پر مختلف معاملات میں 40 کروڑ روپے سے زائد کی رشوت لینے کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔
ترجمان لاہور پولیس نے اس معاملے کوئی بھی بات کرنے سے معذوری ظاہر کی ہے۔ خیال رہے کہ لاہور پولیس کے افسران پر کرپشن کے الزامات نئے نہیں ہیں۔ سرکاری ریکارڈ کے مطابق اس وقت بھی 20 سے زائد افسران کے خلاف مختلف الزامات کے تحت محکمانہ انکوائریاں چل رہی ہیں۔
سنہ 2019 میں اس وقت کے آئی جی پنجاب نے صوبہ بھر میں 36 ڈی ایس پیز کو بیک جنبش قلم کرپشن کے الزامات پر معطل کر دیا تھا جو کہ اب تک کی سب سے بڑی محکمانہ کارروائی سمجھی جاتی ہے۔