(ڈیلی اردو نیوز نیٹ ورک)
ستمبر 2023 میں میکسیکو کے ایوان نمائندگان کانگریس کے سامنے غیر معمولی سروں اور ننھے جسموں والے مبینہ ایلینز یا خلائی مخلوق کے اجسام پیش کیے گئے جو دیکھنے میں 1982 کی سپر ہٹ فلم ای ٹی ایکسٹرا ٹیرسٹریل کے مرکزی کردار سے ملتے جلتے نظر آتے تھے۔
مگر کیا یہ حنوط شدہ اجسام واقعی کسی خلائی مخلوق کے تھے یا اس کی حقیقت کچھ اور ہے؟
کیا وہ انسانوں اور دیگر جانوروں کی ہڈیوں کو استعمال کرکے بنائے ہوئے اجسام ہیں تاکہ وہ ایلینز نظر آسکیں؟
یہ مبینہ ایک ہزار سال پرانی مخلوق لاطینی امریکی ملک پیرو کے شہر کوزکو میں دریافت کرنے کا دعویٰ کیا گیا تھا۔
اس بارے میں سینٹ اینڈریوز یونیورسٹی کے ڈاکٹر مارٹین ڈومینک نے بتایا کہ ان اجسام سے شکوک و شبہات پیدا ہوتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم تصور کر سکتے ہیں کہ ذہین ایلینز انسانوں سے دیکھنے میں مختلف ہوسکتے ہیں مگر یہ اجسام دیکھنے میں 1982 کی فلم جیسے ہیں۔
ماہرین کیا کہتے ہیں؟
انہوں نے کہا کہ لاشوں کو حنوط کرنے کا عمل چہروں کو بگاڑ دیتا ہے اور یہ بھی ایک ممکنہ وضاحت ہے کہ کس طرح ایک انسانی لاش دیکھنے میں ایلین جیسی ہوسکتی ہے اور اس سے خلائی مخلوق ہونے کی غلط فہمی ہو سکتی ہے۔
Strathclyde یونیورسٹی اسپیس سسٹمز انجینئرنگ کے پروفیسر Massimiliano Vasile نے بتایا کہ اگرچہ ایلینز کی موجودگی کو مکمل طور پر مسترد نہیں کیا جا سکتا ہے مگر میکسیکو میں سامنے آنے والے دعوے مشکوک ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس طرح کے معاملات کی تحقیقات کرنا چاہیے کیونکہ ہم کائنات میں کسی طرح کی زندگی کے امکان کو نظر انداز نہیں کر سکتے۔
ان کا کہنا تھا کہ جب خلائی زندگی کے ممکنہ شواہد دریافت ہوں تو ان کی سائنسی جانچ پڑتال، تصدیق اور ڈیٹا اکٹھا کرنا چاہیے، مگر جب میکسیکو جیسا کوئی واقعہ ہوتا ہے تو ہمیں سائنسی شواہد تک رسائی نہیں دی جاتی ہے، ہمارے پاس کوئی ڈیٹا نہیں ہوتا، بس ایک بیان سامنے آتا ہے، تو اس بارے میں سائنسی نقطہ نظر سے کوئی فیصلہ کرنا ممکن نہیں۔
ڈی این اے کا تجزیہ کرنا چاہیے
ان مشتبہ ایلینز کو میکسیکو کے ایک صحافی جیمی ماسن نے میکسیکن کانگریس کے ان اراکین کے سامنے پیش کیا جو اڑن طشتریوں کے حوالے سے تحقیقات کر رہے ہیں۔
وہ ا س سے قبل بھی ایلینز کے نام پر ایسی لاشیں پیش کر چکے ہیں جو بندروں یا بچوں کی ثابت ہوئیں۔
اب جو اجسام انہوں نے پیش کیے ہیں، ان کے 2 ہاتھ، 2 ٹانگیں اور ہر ہاتھ میں 3 انگلیاں ہیں اور ایسا کہا جارہا ہے کہ یہ اجسام ہڈیوں کے مجموعے کی بجائے سنگل ڈھانچے پر مبنی ہیں۔
ایک دعویٰ یہ بھی سامنے آیا ہے کہ ٹیسٹوں میں ان اجسام میں ایسا ڈی این اے دریافت ہوا جو زمین میں کسی مخلوق کا نہیں۔
ڈاکٹر مارٹین ڈومینک نے کہا کہ اگر ڈی این اے کے شواہد موجود ہیں تو ان کا مناسب تجزیہ ہونا چاہیے، اگر ہمیں قائل کر دینے والے شواہد موجود نہ ہوں تو یہ یقین کرنا ممکن نہیں کہ وہ ایلینز ہیں۔
زمین سے باہر زندگی کی تلاش
سینٹ اینڈریوز یونیورسٹی سمیت دنیا بھر میں سائنسدان خلائی زندگی کے آثار تلاش کرنے پر کام کر رہے ہیں۔
2022 میں سینٹ اینڈریوز یونیورسٹی نے خلائی زندگی کے شواہد کی دریافت کے لیے ایک خصوصی شعبہ قائم کیا تھا۔
پروفیسر Massimiliano Vasile نے بتایا کہ ایسا ممکن ہے کہ ایلینز ہمارے علم میں آئے بغیر زمین پر پہنچ چکے ہیوں، مگر ایسا ہوتا تو اب تک کسی نہ کسی قسم کے شواہد ضرور سامنے آچکے ہوتے۔
انہوں نے کہا کہ اگر یہ تصور کیا جائے کہ خلائی مخلوق زمین پر پہنچ چکی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ انہوں نے کہکشاں میں متعدد ٹھکانے قائم کیے ہوں گے، مگر اب تک ہم نے نظام شمسی میں ایسا کچھ نہیں دیکھا۔
ابھی میکسیکو میں ملنے والے اجسام کی شناخت کے لیے کوششیں کی جا رہی ہیں مگر ڈاکٹر مارٹین ڈومینک کا کہنا تھا کہ جب خلائی زندگی کی بات ہوتی ہے تو شواہد کو دیکھنا ضروری ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے متعدد مشتبہ دعوے ہوتے رہتے ہیں اور موجودہ عہد کے میڈیا میں اس طرح کے معاملات کی جانچ پڑتال مشکل ہوتی ہے۔