(ڈیلی اردو نیوز نیٹ ورک)
جولائی 2023 کو انسانی تاریخ کا گرم ترین مہینہ قرار دے دیا گیا ہے۔
ویسے تو ماہرین جولائی میں ہی اسے انسانی تاریخ کا گرم ترین مہینہ قرار دے رہے تھے مگر اب اس کا باضابطہ اعلان کیا گیا ہے۔
یورپی موسمیاتی ادارے Copernicus کلائیمٹ چینج سروس (سی سی سی ایس) کے مطابق جولائی میں فضا اور سمندری درجہ حرارت ریکارڈ سطح پر پہنچ گئے تھے۔
یورپی ادارے نے 8 اگست کو ایک بیان میں بتایا کہ جولائی میں عالمی سطح پر اوسط فضائی درجہ حرارت انسانی تاریخ کے کسی بھی مہینے کے مقابلے میں سب سے زیادہ ریکارڈ ہوا۔
درحقیقت جولائی کے دوران اوسط عالمی درجہ حرارت صنعتی عہد سے قبل کے مقابلے میں 1.5 ڈگری سینٹی گریڈ زیادہ ریکارڈ کیا گیا۔
خیال رہے کہ 2015 کے پیرس معاہدے میں طے کیا گیا تھا کہ عالمی درجہ حرارت کو 1.5 ڈگری سینٹی گریڈ سے تجاوز نہیں کرنے دیا جائے گا۔
بیان کے مطابق سمندروں کی سطح کے اوسط درجہ حرارت میں بھی جولائی میں اضافہ ہوا اور اس مہینے کے دوران سمندری سطح کا اوسط درجہ حرارت گزشتہ 3 دہائیوں کے دوران ریکارڈ ہونے والے اوسط درجہ حرارت سے 0.51 ڈگری سینٹی گریڈ زیادہ تھا۔
یورپی ادارے نے سیٹلائیٹس، بحری جہازوں، طیاروں اور دنیا بھر کے موسمیاتی مراکز کے ڈیٹا کو اکٹھا کرکے جولائی کو انسانی تاریخ کا گرم ترین مہینہ قرار دیا۔
جولائی میں یورپ، شمالی افریقا، مشرق وسطیٰ اور ایشیا کے مختلف حصوں میں گرمی کی ریکارڈ شدت دیکھنے میں آئی تھی، جبکہ جنوبی امریکی ممالک میں موسم سرما کے وسط کے دوران درجہ حرارت ریکارڈ سطح پر پہنچا۔
سی سی سی ایس کی ڈپٹی ڈائریکٹر Samantha Burgess نے کہا کہ اگر درجہ حرارت میں اضافہ عارضی ہے تو بھی اس سے ثابت ہوتا ہے کہ عالمی سطح پر گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں کمی لانے کی فوری ضرورت ہے، درجہ حرارت میں ریکارڈ اضافے کی بنیادی وجہ یہ گیسیں ہی ہیں۔
یہ تو محض آغاز ہے
یورپی ادارے کے مطابق ابھی تک 2023 انسانی تاریخ کا تیسرا گرم ترین سال ثابت ہو رہا ہے جس کے دوران اوسط درجہ حرارت میں 0.43 ڈگری سینٹی گریڈ اضافہ دیکھا گیا۔
مگر آنے والے مہینوں میں یہ انسانی تاریخ کے گرم ترین سال 2016 کو پیچھے چھوڑ سکتا ہے۔
سی سی سی ایس کے مطابق 2016 میں آخری 6 مہینے کسی حد تک ٹھنڈے رہے تھے مگر ایل نینو رجحان کے باعث 2023 کے اختتامی مہینے زیادہ گرم رہنے کا امکان ہے۔
خیال رہے کہ ایل نینو ایک ایسا موسمیاتی رجحان ہے جس کے نتیجے میں بحرالکاہل کے پانی کا بڑا حصہ معمول سے کہیں زیادہ گرم ہوجاتا ہے اور زمین کے مجموعی درجہ حرارت میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔
اس کے مقابلے میں لانینا کے دوران بحر الکاہل کا درجہ حرارت کم ہوتا ہے۔
جولائی میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نتونیو گوتریس نے خبردار کیا تھا کہ درجہ حرارت میں اضافے کا مطلب یہ ہے کہ دنیا میں ایسا عہد شروع ہو رہا ہے جس میں ہماری زمین شدید گرمی کے باعث ابلنے جیسے تجربے کا سامنا کرے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘گلوبل وارمنگ کا عہد ختم ہورہا ہے اور گلوبل بوائلنگ کا عہد شروع ہو رہا ہے’۔
واضح رہے کہ دنیا کے مختلف حصوں میں موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات دیکھنے میں آرہے ہیں، یورپ، امریکا اور ایشیا میں ہیٹ ویوز، کینیڈا اور یونان میں جنگلات کی آگ جبکہ فلوریڈا میں سمندری پانی کے ریکارڈ درجہ حرارت جیسے واقعات سامنے آئے۔
اقوام متحدہ کے عالمی موسمیاتی ادارے (ڈبلیو ایم او) کے سیکرٹری جنرل پروفیسر Petteri Taalas نے بتایا کہ اس طرح کی موسمیاتی شدت نے کروڑوں افراد کو متاثر کیا جو کہ بدقسمتی سے موسمیاتی تبدیلیوں کی ایک تلخ حقیقت ہے اور اس سے مستقبل کی پیشگوئی ہوتی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں کمی کی اس سے زیادہ ضرورت پہلے کبھی نہیں تھی، موسمیاتی اقدامات اب لازمی ہو گئے ہیں۔
ڈبلیو ایم او نے گزشتہ دنوں انکشاف کیا تھا کہ 1850 کی دہائی کے بعد سے (جب سے موسمیاتی ریکارڈ مرتب ہونا شروع ہوا) زمین کو اس طرح کے موسم کا کبھی سامنا نہیں ہوا۔
اس وقت ڈبلیو ایم او کے موسمیاتی سروسز کے سربراہ پروفیسر کرسٹوفر ہیوٹ نے بتایا کہ ہم ایک نامعلوم مقام پر پہنچ چکے ہیں اور یہ ہمارے سیارے کے لیے فکر مند کر دینے والی خبر ہے۔
یہ بھی پڑھیں
رواں ہفتے یومیہ سطح سمندر کے درجہ حرارت نے 2016 کا ریکارڈ توڑ ڈالا
فلوریڈا کے قریب سمندری سطح کے درجہ حرارت نے ممکنہ عالمی ریکارڈ بنا دیا
دنیا کے مختلف حصوں میں جان لیوا ہیٹ ویوز موسمیاتی تبدیلیوں کا نتیجہ قرار
آخر کتنا درجہ حرارت انسانوں کے لیے بہت زیادہ ہوتا ہے؟