لاہور: سول جج کی اہلیہ کے ہاتھوں تشدد کا شکار گھریلو ملازمہ رضوانہ جنرل اسپتال میں زیر علاج ہے جس کے لیے 48 گھنٹے انتہائی اہم قرار دیے گئے ہیں۔
رضوانہ کے علاج کے لیے قائم میڈیکل بورڈ کے سربراہ پروفیسر جودت سلیم نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ رضوانہ بدستور آکسیجن پر ہے، اگلے 48 گھنٹے اہم ہیں، بچی کے سر اور کمر کے زخم مسلسل پٹیاں کرنے سے بھر رہے ہیں۔
پروفیسر جودت سلیم نے کہا کہ رضوانہ کے دونوں بازوؤں کو پلاسٹر کر دیا گیا ہے جب کہ فرانزک ٹیم نے رضوانہ کے زخموں کے نمونے حاصل کیے ہیں، فرانزک رپورٹ سےزخم کی نوعیت اورکتنے پرانے ہیں، پتا چل سکےگا۔
انہوں نے کہا کہ رضوانہ کو سانس لینے میں مشکلات ہیں، اسے آئی سی یو میں رکھا گیاہے، اس نے آنکھیں کھولنا شروع کی ہیں، اس کی آنکھوں پر خون جما ہوا ہے ، خوراک کی کمی اورصحت کا خیال نہ رکھنے کی وجہ سے بھی رضوانہ کی حالت خراب ہوئی۔
نگران وزیراعلیٰ کا وزیراعظم کو فون
دوسری جانب وزیراعظم شہباز شریف کو نگران وزیراعلیٰ پنجاب محسن نقوی نے ٹیلیفون کیا جس میں انہوں نے وزیراعظم کو بچی رضوانہ کےکیس، صحت اور علاج معالجے کے حوالے سے آگاہ کیا۔
محسن نقوی نے کہا کہ بچی کے والدین نے ملاقات میں انصاف اور مدد کی اپیل کی ہے۔
وزیراعظم نے مظلوم خاندان کی ہر ممکن مدد اور فوری انصاف کی فراہمی کی یقین دہانی کرائی ہے۔
بچی پر تشدد کا کیس
واضح رہے کہ 24 جولائی کو تشدد کی شکار 14 سالہ بچی رضوانہ کا معاملہ سامنے آيا تھا، بچی کی ماں نے جج کی اہلیہ پر تشدد کا الزام لگایا تھا، جب بچی کو اسپتال پہنچایا گیا تو اس کے سر کے زخم میں کيڑے پڑ چکے تھے اور دونوں بازو ٹوٹے ہوئے تھے اور وہ خوف زدہ تھی۔
جج کا اہلیہ کے نفسیاتی مسائل کا اعتراف
وی نیوز کو انٹرویو میں سول جج عاصم حفیظ نے اپنی اہلیہ کے نفسیاتی مسائل کا یہ کہہ کر اعتراف کیا کہ وہ سخت مزاج ضرور تھیں، پر ان کی بیوی نے انہیں بتایا ہے کہ کبھی مارپیٹ نہیں کی، گھر سے جاتے وقت بچی کی حالت ایسی نہیں تھی جیسی دکھائی گئی ہے۔