107

بجلی کے بعد چینی کا بحران: کیا یہ نگران حکومت کا امتحان ہے؟

پاکستان کے معاشی حالات دگرگوں ہیں جس کے باعث عوام کے روز مرہ کے معاملات براہ راست متاثر ہو رہے ہیں۔ ایک طرف بجلی کی قیمت میں حالیہ اضافے کی وجہ سے لوگ سراپا احتجاج ہیں تو اب چینی کی قیمت میں اچانک اضافے نے بھی خبروں میں جگہ بنانا شروع کر دی ہے۔
پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں اس وقت چینی 175 روپے کلو تک فروخت ہو رہی ہے جبکہ چینی کے سرکاری نرخ 100 روپے فی کلو ہیں۔

دکانداروں کا کہنا ہے کہ ہول سیل میں چینی کی قیمت بڑھ رہی ہے اس لیے وہ سرکاری ریٹ پر چینی نہیں بیچ سکتے۔ پنجاب کے مختلف اضلاع میں اس وقت چینی 150 روپے سے 175 روپے فی کلو تک فروخت ہو رہی ہے۔ صرف ایک روز میں چینی کی قیمت میں دس روپے فی کلو ریکارڈ اضافہ ہوا ہے۔
لاہور کی ہول سیل کی سب سے بڑی مارکیٹ اکبری منڈی کے تاجر محمد اظہر کہتے ہیں کہ ’اس وقت مارکیٹ میں تیسری قوت کارفرما ہے۔ منڈی میں جو جنس آتی ہے مارکیٹ فورسز ہی اس کا ریٹ طے کرتی ہیں۔ اس وقت چینی کی کھپت بہت زیادہ ہے یا پھر یہ سمگل ہو رہی ہے۔ اگر ہول سیل مارکیٹ میں چینی کم آ رہی ہے تو لامحالہ اس کا ریٹ بڑھے گا۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ چینی کی سپلائی چین میں لوپ ہولز کو بند کرے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’ہم مارکیٹ میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ یہاں نہ تو چینی ذخیرہ ہو سکتی ہے اور نہ ہی اس کو بلیک کیا جا سکتا ہے۔ کیونکہ ہمارا کام گھنٹوں کے حساب سے چلتا ہے۔ جو بھی مسئلہ ہے اس کا تعلق مارکیٹ سے نہیں۔ ہمیں یاد ہے حکومت نے کہا تھا کہ اس بار چینی سرپلس ہے لیکن اب چینی مارکیٹ میں نایاب ہو رہی ہے۔‘
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں اس سال 68 لاکھ ٹن چینی کی پیداوار ہوئی ہے۔ ایک لاکھ ٹن چینی گزشتہ مالی سال سے سرپلس اس سال میں لائی گئی۔ جبکہ اڑھائی لاکھ ٹن چینی اس سال ایکسپورٹ کی گئی ہے۔
تو چینی کہاں گئی؟ اس حوالے سے براہ راست معلومات تو موجود نہیں ہیں البتہ ہول سیل تاجر اور مل مالکان یہ الزام عائد کر رہے ہیں کہ چینی افغانستان سمگل کی جا رہی ہے۔
لاہور سے تعلق رکھنے والے شوگر ملز مالک چوہدری وحید نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’چینی کی کسی قسم کی کوئی کمی نہیں صرف ملی بگھت سے سمگل کی جا رہی ہے۔ جیسے ہی ڈالر کا ریٹ بڑھا ہے تو بہت سی قوتیں سرگرم ہو گئی ہیں جو اس کو بطور ہتھیار استعمال کر رہی ہیں۔
انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے بتایا کہ ’حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ چینی کی سمگلنگ کو روکیں۔ اگر صورت حال ایسی ہی رہی تو چینی ملنا بھی بند ہو جائے گی۔ لوگوں نے بڑے پیمانے پر مارکیٹ سے چینی اٹھائی ہے لیکن وہ پاکستان کے شہریوں تک نہیں پہنچی ہے۔

پنجاب کی نگران حکومت نے گراں فروشی کے خلاف ایک مہم شروع کر رکھی اور ضلعی حکومتیں سرکاری نرخ نامے سے ہٹ کر اشیا فروخت کرنے والے دکانداروں کے خلاف کاروائیاں کر رہی ہیں۔ صرف لاہور میں ایک دن میں ڈیڑھ سو دکانداروں کو جرمانے کیے گئے ہیں۔

پنجاب حکومت کے ترجمان عامر میر کہتے ہیں کہ ’مہنگی اشیا فروخت کرنے والوں کے خلاف زیرو ٹالرنس پالیسی ہے اور نگران وزیراعلٰی محسن نقوی خود صورت حال کا جائزہ لے رہے ہیں۔ چینی کے حوالے خبریں آ رہی ہیں اور اس وقت مشنری بھی حرکت میں ہے کسی کو ذخیرہ اندوزی نہیں کرنے دیں گے اور جلد ہی صورت حال قابو میں ہو گی۔‘

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں