اسلام آباد وزیر اعظم عمران خان نے امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کیلئے ایک کالم لکھا ہے جس میں انہوں نے دنیا سے کہا ہے کہ افغانستان میں جنگ کے نتیجے کا پاکستان کو ذمہ دار قرار نہ دیا جائے۔ ذیل میں وزیر اعظم عمران خان کے کالم کا ترجمہ پیش کیا جا رہا ہے۔ امریکی کانگریس کی حالیہ سماعتیں دیکھ کر مجھے حیرت ہوئی کہ امریکہ کی دہشتگردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی بطور اتحادی قربانیوں کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا الٹا ہمیں امریکہ کی شکست کا ذمہ دار قرار دیا گیا۔مجھے سیدھی بات کہنے دیں۔ سنہ 2001 سے میں نے بار بار یہ کہا کہ افغانستان میں جنگ نہیں جیتی جاسکتی، ان کی تاریخ کو دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ افغان کسی غیر ملکی فوج کو برداشت نہیں کرسکتے اور اس حقیقت کو باہر کا کوئی بشمول پاکستان کے تبدیل نہیں کرسکتا۔بد قسمتی سے نائن الیون کے بعد پاکستانی حکومت نے بجائے فوجی سوچ کی غلطی کی نشاندہی کرنے کے امریکہ کو خوش کرنا چاہا ۔ عالمی شناخت اور اندرونی طور پر اپنی حیثیت کو مضبوط کرنے کیلئے پاکستان کے فوجی ڈکٹیٹر پرویز مشرف نے نائن الیون کے بعد امریکہ کی فوجی مدد کے ہر مطالبے کو تسلیم کیا جس کی پاکستان اور امریکہ نے بھاری قیمت چکائی۔امریکہ نے پاکستان سے کہا کہ وہ ان گروپوں کو نشانہ بنائے جنہیں سوویت یونین کے خلاف 80 کی دہائی میں افغانستان میں لڑنے کیلئے سی آئی اے اور آئی ایس آئی نے مشترکہ طور پر ٹریننگ دی تھی۔ اس وقت ان افغانوں کو ایسے فریڈم فائٹر کہا جاتا تھا جو انتہائی مقدس فریضہ سرانجام دے رہے تھے۔ صدر رونلڈ ریگن نے تو مجاہدین کو وائٹ ہاؤس میں مدعو بھی کیا تھا۔جب سوویت یونین کو شکست دے دی گئی تو امریکہ نے افغانستان کو تنہا چھوڑ دیا اور میرے ملک پر پابندیاں عائد کردیں، امریکہ جاتے ہوئے پاکستان میں 40 لاکھ افغان مہاجرین اور افغانستان میں خانہ جنگی چھوڑ گیا۔ اس سیکیورٹی خلا سے طالبان نے جنم لیا، ان میں سے بہت سے لوگوں نے پاکستان میں قائم افغان مہاجر کیمپوں میں جنم لیا اور یہیں تعلیم حاصل کی۔
جلدی سے نائن الیون کی طرف چلتے ہیں جب امریکہ کو ایک بار پھر ہماری ضرورت پڑی، لیکن اس بار ان لوگوں کے خلاف جن کو ہم نے غیر ملکی قبضے کے خلاف لڑنے کی ٹریننگ دی تھی۔ مشرف نے واشنگٹن کو لاجسٹکس اور ایئر بیسز دیں، سی آئی اے کو پاکستان میں جگہ دی اور یہاں تک کہ امریکہ کے ان ڈرون حملوں سے بھی چشم پوشی کی جو پاکستان کی دھرتی پر بمباری کرتے تھے۔ تاریخ میں پہلی بار ہماری آرمی نے پاک افغان سرحد کے نیم خود مختار قبائلی علاقوں میں آپریشن کیا ، یہ وہ علاقے تھے جنہیں سوویت مخالف جہاد کیلئے بیس کیمپ کے طور پر استعمال کیا گیا تھا۔ یہاں کے آزاد پشتون قبائل طالبان اور دوسرے اسلامی عسکریت پسندوں کے ساتھ گہرے قومی روابط تھے۔ان لوگوں کیلئے امریکہ بھی افغانستان کا ویسا ہی قابض تھا جیسے سوویت تھے اور امریکہ کے ساتھ بھی ویسا ہی سلوک ہونا چاہیے تھا۔ اب چونکہ پاکستان امریکہ کا اتحادی تھا اس لیے ہمیں مجرم قرار دے کر ہم پر بھی حملے کیے گئے۔ اس جلتی پر تیل کا کام ہماری سرزمین پر امریکہ کے 450 سے زائد ڈرون حملوں نے کیا، اس نے ہمیں دنیا کی تاریخ کا ایسا واحد ملک بنادیا جس پر اس کے اتحادی ہی بم برسا رہا تھا، ان حملوں میں بے تحاشہ سویلین اموات ہوئیں جس کے نتیجے میں امریکہ اور پاکستان کی فوج کے خلاف جذبات مزید گہرے ہوگئے۔موت اس کی قیمت تھی۔ سنہ 2006 سے سنہ 2015 کے دوران 50 کے قریب عسکریت پسند گروہوں نے پاکستانی ریاست کے خلاف جہاد کا اعلان کردیا اور ہمارے اوپر 16 ہزار حملے کیے۔ ہم نے 80 ہزار سے زائد جانیں گنوائیں اور ہماری معیشت کو 150 ارب ڈالر سے زائد کا نقصان ہوا۔ اس تنازعے میں ہمارے 35 لاکھ لوگ بے گھر ہوئے۔ پاکستان کی کاؤنٹر ٹیرارزم کوششوں سے بچ نکلنے والے دہشت گرد افغانستان چلے جاتے جہاں انہیں بھارتی اور افغان انٹیلی جنس ایجنسیاں مدد کرتیں اور پھر یہ ہمارے خلاف اور زیادہ حملے کرتے۔پاکستان کو اپنے بقا کی جنگ لڑنی تھی۔ کابل میں سی آئی اے کے سابق سٹیشن چیف نے 2009 میں لکھا کہ ’پاکستان امریکہ کے براہ راست شدید دباؤ کی وجہ سے ٹوٹنا شروع ہوگیا ہے‘ اس کے باوجود امریکہ نے افغان جنگ کیلئے پاکستان سے ’ڈو مور‘ کا مطالبہ جاری رکھا۔ایک سال پہلے سنہ 2008 میں میں سینیٹرز جو بائیڈن، جان کیری اور ہیری ریڈ (سمیت دیگر) سے ملا تاکہ انہیں بتا سکوں کہ افغانستان میں فوجی کارروائیاں جاری رکھنے کا کیا نقصان ہوسکتا ہے۔ صدر آصف زرداری ، بلا شبہ میرے ملک پر حکومت کرنے والے سب سے کرپٹ انسان ہیں، انہوں نے امریکیوں سے کہا کہ وہ پاکستان پر حملے جاری رکھیں کیونکہ ’ کولیٹرل ڈیمیج آپ امریکیوں کو پریشان کرتا ہوں، یہ میرے لیے مسئلہ نہیں۔‘ ہمارا اگلا وزیر اعظم نواز شریف بھی مختلف نہیں تھا۔جب پاکستان 2016 میں دہشتگردوں کو لگ بھگ شکست دے چکا تھا اس وقت افغان صورتحال میں بگاڑ جاری رہا، ہم نے اس سے خبردار بھی کیا تھا۔ فرق کیا تھا؟ پاکستان کی ایک ڈسپلن آرمی اور خفیہ ایجنسی تھی جنہیں بھرپور عوامی حمایت حاصل تھی۔ افغانستان میں غیر ملکی جنگ کا ایک کرپٹ اور نا اہل حکومت کے ذریعے دفاع کیا جا رہا تھا، اسے خصوصی طور پر دیہی افغان علاقوں میں ایک کٹھ پتلی کے طور پر دیکھا گیا جس کی کوئی وقعت نہیں تھی۔انتہائی افسوس کی بات ہے کہ حقیقت کا سامنا کرنے کی بجائے، افغان اور مغربی حکومتوں نے الزامات کیلئے پاکستان کو قربانی کو بکرا بنالیا اور پاکستان پر طالبان کو محفوظ پناہ گاہیں دینے کے غلط الزامات لگانا شروع کردیے۔ اگر ایسا ہوتا تو کیا امریکہ اپنے ان 450 سے زائد ڈرون حملوں کو ان کی محفوظ پناہ گاہوں کو نشانہ بنانے کیلئے استعمال نہیں کرسکتا تھا۔اس کے باوجود پاکستان نے کابل کی تسلی کیلئے مشترکہ بارڈر وزیبلٹی میکانزم کی آفر کی اور تجویز دی کہ بائیو میٹرک بارڈر کنٹرول سسٹم لایا جائے، پاکستان نے سرحد پر باڑ لگانے (اس کا بڑا حصہ ہم نے اپنے طور پر مکمل کرلیا ہے) سمیت دیگر اقدامات اٹھانے کی حمایت کی لیکن ہمارے ہر آئیڈیا کو مسترد کردیا گیا۔ اس کے بعد افغانستان کے حکومتی اہلکاروں نے پاکستان پر الزامات کو تیز کردیا ، انہیں انڈیا کے فیک نیوز نیٹ ورک کی حمایت حاصل رہی جس نے مختلف ملکوں میں سینکڑوں پراپیگنڈا ویب سائٹس بنائیں۔طالبان کے ساتھ مذاکرات کیلئے پہلے ہی حقیقت پسندانہ سوچ اپنا کر افغان آرمی اور اشرف غنی کی حکومت گرنے کی ذلت سے بچا جاسکتا تھا۔ اس بات کیلئے یقینی طور پر پاکستان کو موردِ الزام نہیں ٹھہرایا جاسکتا کہ افغانستان کے انتہائی تربیت یافتہ جدید ہتھیاروں سے لیس تین لاکھ فوجیوں نے ہلکے ہتھیار رکھنے والے طالبان سے جنگ نہیں کی۔ اس کی اصل وجہ ایک ایسی افغان حکومت تھی جس کی قانونی حیثیت عام افغانوں کی نظر میں مشکوک تھی۔آج ہمیں افغانستان کی صورتحال کو سامنے رکھتے ہوئے بلیم گیم کو چھوڑتے ہوئے مستقبل کو دیکھنا ہوگا کہ کس طرح افغانستان میں ایک اور خونی جنگ کو ٹالا جائے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ دنیا کو امن اور استحکام یقینی بنانے کیلئے نئی افغان حکومت کے ساتھ تعلقات قائم کرنے ہوں گے۔ عالمی برادری چاہے گی کہ حکومت میں مختلف نسلی گروہوں کو شامل کیا جائے، تمام افغانوں کیلئے یکساں حقوق ہوں اور افغان سرزمین کسی بھی ملک کے خلاف دہشت گردی کیلئے استعمال نہ ہو۔ طالبان لیڈرز کو اگر مسلسل انسانی اور ترقیاتی معاونت فراہم کی جاتی رہے تو ان کے پاس اپنے وعدوں پر عمل کرنے کی بڑی وجہ موجود ہوگی۔ اس طرح کی سہولیات کے ذریعے بیرونی دنیا کے پاس یہ موقع موجود رہے گا کہ وہ طالبان کو اپنے وعدوں پر عمل کیلئے قائل کرسکیں۔اگر ہم یہ اچھے سے کریں تو ہم دوحہ امن مذاکرات میں طے پانے والے معاملات یعنی ایک ایسا افغانستان جو دنیا کیلئے خطرہ نہیں، جہاں چار دہائیوں کی جنگ کے بعد افغان شہری امن دیکھ سکیں، میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔ اگر ہم افغانستان کو چھوڑ دیں گے تو ایسا تو ہم نے پہلے بھی کرکے دیکھا ہے، 90 کی دہائی کی طرح یہ ایک بار پھر بکھر جائے گا، اور اس کے نتائج افراتفری، بڑے پیمانے پر مہاجرت اور عالمی دہشتگردی کی صورت میں نکلیں گے، اس سب سے بچاؤ عالمی دنیا کو یقینی بنانا ہوگا۔
174