اسلام آباد کی فیصل مسجد کے سامنے برسوں سے ریڑھی لگانے والے فرمان اللہ کو ضمانت پر رہا کرنے کی درخواست پر رجسٹرار دفتر کے اعتراضات ہائیکورٹ نے ختم کر دیے ہیں۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس طارق جہانگیری نے سی ڈی اے کے مجسٹریٹ کی عدالت سے سزایافتہ ریڑھی بان فرمان اللہ کی ضمانت کی درخواست کی سماعت کی۔
وکیل عمر اعجاز گیلانی نے عدالت کو بتایا کہ اسلام آباد کے ترقیاتی محکمے (سی ڈی اے) نے ریڑھی بان پر قبضے کی غلط دفعات کے تحت مقدمہ چلایا اور غیرمعمولی ’تیزتر انصاف‘ فراہم کرتے ہوئے 24 گھنٹوں کے اندر فیصلہ سنایا اور جیل بھجوا دیا۔
عدالت کو بتایا گیا کہ درخواست گزار ریڑھی بان کے پانچ بچے ہیں جن میں سے چار معذور ہیں جو عدالت میں موجود ہیں۔
جسٹس طارق جہانگیری نے کہا کہ کیا بغیر سرکاری اجازت نامے کے ریڑھی لگانا جرم نہیں؟ ’کیا آپ کے گھر کے سامنے کوئی ریڑھی لگا دے تو غلط نہیں ہوگا؟‘
وکیل عمر گیلانی نے کہا کہ اگر جرم ہے بھی تو اس کے مطابق مقدمہ چلا کر سزا دی جا سکتی ہے۔ ’اس کیس میں قبضے کے قانون کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کر کے چلایا گیا اور سزا دی گئی۔‘
وکیل نے کہا کہ ریڑھی لگانا قبضے میں نہیں آتا۔ ’بغیر لائسنس کے اسلام آباد میں ریڑھی لگانے کی سزا لوکل گورنمںٹ قانون 2015 کی سیکشن 104 کے تحت 400 روپے جرمانہ ہے۔‘
عمر گیلانی نے عدالت کو بتایا کہ اُن کے مؤکل کو سی ڈی اے مجسٹریٹ کی عدالت میں وکیل نہیں کرنے دیا گیا اور دباؤ ڈال کر اعترافِ جرم کرایا گیا۔
عدالت نے رجسٹرار دفتر کے اعتراضات ختم کرتے ہوئے ضمانت کی درخواست پیر کو سماعت کے لیے مقرر کر دی۔
ریڑھی بان فرمان اللہ کو سی ڈی اے کے اہلکاروں کی جانب سے نوٹس دیا گیا تھا جبکہ رواں ماہ کی 11 تاریخ کو اُن پر سی ڈی اے مجسٹریٹ کی عدالت میں مقدمہ چلا کر اُسی دن تین ماہ قید بامشقت اور پانچ لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی گئی۔
عدالتی ریکارڈ کے مطابق فرمان اللہ کو 12 جولائی کو گرفتار کر کے جیل بھیج دیا گیا تھا۔
پاکستان میں سوشل میڈیا پر فرمان اللہ کی گرفتاری اور جیل بھیجنے کی خبر شیئر ہوتے ہی سخت عوامی ردعمل دیکھنے میں آیا۔
متعدد شہریوں نے یہ رائے ظاہر کی کہ قانون پر عمل درآمد ضروری ہے مگر یہ بلاتخصیص ہونا چاہیے جبکہ زیادہ تر افراد نے کہا کہ بغیر لائسنس ریڑھی لگانے پر قبضے کا مقدمہ درج کرنا قانون کا غلط استعمال ہے۔
108