اسلام آباد وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم نے کہا ہے کہ نئے چیئرمین نیب کی تقرری صدر مملکت آف پاکستان ،قائد ایوان اور اپوزیشن لیڈر سےمشاورت کےبعد کرینگے،مشاورت کےبعداگراتفاق رائے نہ ہو سکا تو چیئرمین نیب کی تقرری کے حوالےسے سپیکر قومی اسمبلی پارلیمانی کمیٹی بنائیں گے، پارلیمانی کمیٹی چھ اپوزیشن اور چھ حکومتی اراکین پر مشتمل ہوگی۔وفاقی وزیر برائے اطلاعات و نشریات فواد چوہدری کیساتھ مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئےوفاقی وزیر قانون فروغ نسیم نے کہا کہ عام خیال یہ تھا کہ تاجر برادری اور بیوروکریسی نیب قانون سے تنگ ہو رہی تھی، کاروباری افراد اور بیورو کریسی ملک کے اہم ستون ہیں،پرائیویٹ پرسن کو مکمل نیب کے اختیارات سے نکال دیا گیا ہے، کچھ آفس ہولڈرز کے پروسیجنل لیپسز ہوتے ہیں لیکن ان کی نیت ٹھیک ہوتی ہے، آفس ہولڈر کے پروسیجنل لیپسز کو بھی نیب اختیارات سے نکال دیا گیا ہے، نیب آرڈیننس میں بیورو کریسی کے لئے بھی نیک نیتی سے ترمیم لائے ہیں، ایسی ترامیم لانے پر اتفاق ہوا کہ ٹیکس معاملات ایف بی آر کو منتقل کئے جائیں، نیب آرڈیننس سے کیسز ختم نہیں ہوں گے بلکہ فورم تبدیل ہو رہا ہے، ایف بی آر کے پاس بھی جرمانے عائد کرنے، ریکوری کرنے اور ٹیکس کے معاملات کو حل کرنے کی پاور موجود ہے، ایف بی آر تحقیقات کر سکتا ہے۔انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے بیورو کریسی کے معاملے میں اپوزیشن آڑے آ گئی،بدقسمتی سے اپوزیشن نے چیئرمین نیب کی تقرری کے حوالے سے آرڈیننس کے معاملہ پر بھی سیاست کی،اپوزیشن نیب کی ترامیم میں اپنی 34 ترامیم لے آئی, یہ آرڈینس قانون سازی کا حصہ ہے ایزیکٹو پاور نہیں ہے، قانون سازی کے دو طریقے ہیں ، آرڈیننس اور بل، دونوں راستے پارلیمنٹ کی طرف ہی جاتے ہیں,ملک میں 90 نیب عدالتوں کے قیام کی سفارش کی ہے،ہمارے پاس اتنے ججز نہیں ہیں کہ موجودہ ججز میں سے احتساب عدالتوں کے جج تعینات کیے جائیں، ڈسٹرکٹ اینڈ سیسشن ججز احتساب عدالتوں کے ججز لگائے جا سکتے ہیں ،ریٹائرڈ ججز جن کی عمر 68 سال سے کم ہے ان کو بھی احتساب عدالتوں کا جج لگایا جا سکتا ہے لیکن ان کی کنسلٹیشن چیف جسٹس آف پاکستان سے ہوگی،احتساب عدالتوں میں ججز متعلقہ ہائی کورٹس کے چیف جسٹس صاحبان کی مشاورت سے لگائے جائیں گے۔انہوں نے کہا کہ چیئرمین نیب کی تقرری کے لئے وزیراعظم عمران خان کے ساتھ کئی اجلاس ہوئے،نئے چیئرمین نیب کی تقرری صدر مملکت ،قائد ایوان اور اپوزیشن لیڈر سے مشاورت کے بعد کرینگے،مشاورت کے بعد اگر اتفاق رائے نہ ہو سکا تو پارلیمانی کمیٹی بنے گی، چیئرمین نیب کی تقرری کے حوالےسے سپیکر قومی اسمبلی پارلیمانی کمیٹی بنائیں گے، پارلیمانی کمیٹی چھ اپوزیشن اور چھ حکومتی اراکین پر مشتمل ہوگی,چیئرمین نیب کے لئے لفظ نان ایکسٹینڈ ایبل کو تبدیل کیا ہے ، نئے چیئرمین نیب کی تقرری تک موجودہ چیئرمین نیب فرائض سر انجام دیتے رہیں گے، نئے چیئرمین نیب کی تقرری تک موجودہ چیئرمین نیب کو تمام اختیارات حاصل ہوں گے، موجودہ چیئرمین نیب کی کارکردگی سب کے سامنے ہے، چیئرمین نیب کے مس کنڈیکٹ سے متعلق شکایت جوڈیشل کونسل میں کی جا سکے گی ،اگر چیئرمین نیب کی سزا جزا کا معاملہ ہوتا ہے تو معاملہ سپریم جوڈیشل کونسل میں جائے گا۔انہوں نے کہا کہ پراسیکیوٹر جنرل کا کردار بہت حد تک بڑھا رہے ہیں،نظام کی شفافیت کےلئےپراسیکیوٹر جنرل اہم کردار ادا کرتا ہے،نیب کا پورا ادارہ پراسیکیوٹر جنرل کو آزادانہ مشورہ دے گا،پروسیکیوٹرجنرل اپنی فائنڈنگ کےبعد چیئرمین نیب کو مشورہ دے گا کہ یہ کیس جاری رکھیں یا واپس لےلیں,ضمانت کےحوالے سےاختیارات ہائیکورٹ کودئیےجارہےہیں،ضمانت دینی ہے یانہیں یہ عدالت کااختیارہوگا،پہلےیہ ہوتاتھالوگ دس دس سال سزاکےباوجود نوکریوں پررہتے تھے،سزا بھگتنے والےملازمین خودمستعفی ہوجائیں نہیں تو اس قانون کےتحت وہ نااہل ہو جائیں گے،میرےاورفوادچوہدری کےبیانئے میں کوئی فرق نہیں ہے ،میرے اور فواد چوہدری کے بیانیے میں فرق سے متعلق باتیں جھوٹی اور بے بنیاد ہیں۔
183