83

دائرے کا سفر


نسیم شاہد
پاکستان میں سیاست ایک ایسا شعبہ ہے، جس میں ایک بار جو داخل ہو جائے مشکل ہی سے نکلتا ہے بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی۔ سیاست میں ریٹائرمنٹ کی عمر بھی کوئی نہیں پیرانہ سالی کے باوجود لوگ اس میں اپنا رنگ جمائے رکھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں سیاست میں کوئی تبدیلی بھی نہیں آتی اور مکھی پر مکھی مارنے کا سلسلہ جاری رہتا ہے، سیاسی جماعتیں بھی انہی لوگوں کو ٹکٹ دیتی ہیں جو منجھے ہوئے کھلاڑی ہوتے ہیں۔ ایک ایک شخص کئی کئی بار رکن اسمبلی بن جاتا ہے یہ اس کے لئے معمول ہوتا ہے کہ وہ رکن اسمبلی ہے، چاہے کچھ کرے یا نہ کرے یہیں سے الیکٹیبلز کی اصطلاح بھی ہمارے ہاں آئی ہے اور سیاسی جماعتوں کو یہی لوگ ہائی جیک کئے رکھتے ہیں۔ موروثی سیاست کا دور بھی ہماری سیاست میں اسی لئے چلتا ہے کہ باپ اپنے بیٹے یا داماد کو آگے لے آتا ہے اور حلقے میں کسی اور کو اٹھنے نہیں دیتا، کہا تو بہت جاتا ہے کہ سیاست میں تبدیلی آنی چاہئے مگر تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں چند سو لوگوں کے سوا سیاست میں اور کوئی نظر نہیں آئے گا، یہی لوگ کبھی ایک سیاسی جماعت میں چلے جاتے ہیں اور کبھی دوسری جماعت کا چوغہ پہن لیتے ہیں ان کا نظریہ اقتدار میں رہنا ہوتا ہے اور اس کے لئے وفاداری تبدیل کرنا یا ہوا کا رخ دیکھ کر پارٹی بدل لینا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہوتا ہے۔

ملک میں کوئی سیاسی جماعت بھی نئے لوگوں کو آگے لانے کا رسک نہیں لیتی، چند سو خاندان ہیں، جو ہر بار اقتدار میں آ جاتے ہیں، بھٹو جیسا بڑا لیڈر بھی جن کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ کھمبے کو بھی ٹکٹ دیں گے تو جیت جائے گا، وڈیروں، جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کو ٹکٹ دینے پر مجبور ہو گئے، حالیہ دنوں میں مثال عمران خان کی ہے، انہوں نے تبدیلی کا نعرہ لگایا، نئے پاکستان کی باتیں کیں، نئے لوگوں کو آگے لانے کے دعوے کئے مگر سب نے دیکھا کہ وہ بھی چند چہروں کی زنجیر نہ توڑ سکے، ان کے اردگرد بھی وہی لوگ اکھٹے ہو گئے جو ہر دور میں سیاست و اقتدار میں رہے، یہی وجہ ہے کہ جب تحریک انصاف اقتدار میں آئی تو ایسا کچھ بھی نہیں کر سکی جس کے دعوے عمران خان کرتے رہے تھے۔ یہ سب لوگ پارٹی سے کتنے وفادار تھے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 9 مئی کے بعد وہ سوکھے پتوں کی طرح جھڑتے چلے گئے اور پارٹی کے درخت کو ٹنڈ منڈ کر گئے۔ یہ پاکستان کی سیاست کا المیہ ہے کہ اس میں مفاد پرستی اور نظریہئ ضرورت کی فراوانی ہے، آج بھی یہی کچھ ہو رہا ہے کہنے کو نئی سیاسی جماعتیں بن ہی ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ پرانے چہروں پر مشتمل ہیں۔ صرف پارٹی کا نام نیا ہے باقی تو سب کچھ پرانا ہے، وہی دوسری جماعتوں سے نکلے ہوئے لوگ، وہی چہرے جنہیں عوام کئی بار آزما چکے ہیں، وہی دقیانوسی سیاست کے علمبردار اور وہی موقع دیکھ کے وفاداریاں تبدیل کرنے والے، ایسے لوگوں سے کیا توقع کی جا سکتی ہے اور ان کی وجہ سے ملک میں کیا تبدیلی آ سکتی ہے، اس بار تحریک انصاف کے پاس موقع ہے کہ وہ نئے لوگوں کو ٹکٹ دے کیونکہ پرانے تو اکثر جا چکے ہیں تاہم یہاں بھی آخر وقت پر وہی لوگ آگے آ جائیں گے جن کا کسی روائیتی سیاسی خاندان سے تعلق ہے یا جن کے پاس پیسہ ہے یا جاگیردارانہ پس منظر رکھتے ہیں۔

سیاسی جماعتوں میں ایک مخلوق سیاسی کارکنوں کی بھی ہوتی ہے یہ وہ لوگ ہیں جو سیاسی جماعتوں کو زندہ رکھتے ہیں اصولاً تو ان کا اسمبلیوں میں کوئی حصہ ہونا چاہئے، کیونکہ عوامی طبقوں کی اصل نمائندگی یہی کرتے ہیں لیکن ایسا کبھی ہوا ہے اور نہ ہوگا۔ سیاسی جماعتیں ٹکٹوں کی تقسیم کے وقت اتنی زیادہ فیس رکھ دیتی ہیں کہ عام کارکن تو ٹکٹ کے لئے درخواست بھی نہیں دے سکتا، پھر پارٹی فنڈ علیحدہ مانگا جاتا ہے، الیکشن مہم کے دوران جو اخراجات ہوتے ہیں، وہ سیاسی کارکن کے بس کی بات نہیں، کیونکہ اس سارے عمل کو اتنا مہنگا کر دیا گیا ہے کہ عام آدمی تو الیکشن میں حصہ لینے کی بابت سوچ بھی نہیں سکتا، البتہ سیاسی جماعتیں اگر چاہیں تو اپنے کارکنوں کو ٹکٹیں دے کر پارٹی فنڈ سے ان کی الیکشن مہم چلا سکتی ہیں، یہ ایسا عمل ہے جو ملکی سیاست میں ایک بڑی تبدیلی کا باعث بن سکتا ہے، مگر سیاسی جماعتیں ایسا کیوں کریں گی؟ جب ان کے پاس دولت مند پیسہ لئے کھڑے ہوتے ہیں اور ٹکٹ کے لئے کروڑوں روپے دینے کو بھی تیار ہو جاتے ہیں پھر ہر سیاسی جماعت کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ نشستیں حاصل کرے، اس کے لئے وہ نامی گرامی امیدواروں کو ٹکٹ دیتی ہیں، جن کا منتخب ہونے کے بعد کام صرف یہ ہوتا ہے کہ جتنا پیسہ الیکشن مہم کے دوران خرچ ہوا ہے وہ مع منافع حاصل کیا جائے، اپنے حلقے میں چودھراہٹ برقرار رکھنا بھی ان کی عادت ہوتی ہے، مرضی کے افسر تعینات کرانا اور جائز و ناجائز کام کرا کے عوام پر اپنی دھاک جمانا، یہی سیاست کہلاتی ہے اب ظاہر ہے اس سے ملک میں کوئی تبدیلی تو نہیں آ سکتی، انتخابات ہوتے ہیں، حکومتیں نئی بن جاتی ہیں مگر عوام کے حالات نہیں بدلتے۔ بلکہ پہلے سے زیادہ خراب ہو جاتے ہیں آج آپ دیکھیں کہ ملک میں تیسری اسمبلی اپنی مدت مکمل کرنے والی ہے۔ یعنی تین بار منتخب حکومتیں اس ملک میں آئی ہیں مگر کوئی کہہ سکتا ہے کہ ہم پیچھے کی بجائے آگے گئے ہیں۔ 2008ء کے حالات دیکھ لیں ا ور آج 2023ء کے حالات سامنے رکھیں، صاف لگے گا کہ ترقی کی بجائے بد حالی کا سفر کیا ہے مراعات یافتہ طبقہ البتہ ضرور خوشحال ہوا ہے، لیکن جہاں تک عوام کا تعلق ہے تو وہ ماضی کی خوشحالی کو یاد کر کے آج ٹھنڈی آہیں بھرتے ہیں، سیاست جب تک کولہو کے بیل کی طرح ایک ہی دائرے میں گھومتی رہے گی کچھ بھی نہیں بدلے گا اور اس دائرے کو توڑنے کا امکان بھی دور دور تک نظر نہیں آتا کہ اس کے محافظوں نے اس پر کڑا پہرہ جما رکھا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں