امریکہ اضافی جنگی جہاز اور ہزاروں فوجی مشرق وسطیٰ بھیج رہا ہے تاکہ وہاں تجارتی بحری جہازوں کو قبضے میں لینے کی ایرانی کوششوں کے لیے سدباب کے لیے سیکورٹی میں اضافہ کیا جا سکے۔
خبر رساں ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس نے امریکی حکام کے حوالے سے بتایا ہے کہ وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے جمعرات کو ’یو ایس ایس باتان ایمفیبیئس ریڈینس گروپ‘ اور 26ویں میرین ایکسپیڈیشنل یونٹ کو خلیجی خطے میں تعینات کرنے کی منظوری دی۔ ریڈی نیس گروپ تین بحری جہازوں پر مشتمل ہے جس میں حملہ کرنے والا جہاز باتان بھی شامل ہے۔ بحری مہم پر جانے والا یونٹ عام طور پر تقریباً 2500 میرینز پر مشتمل ہوتا ہے۔
ایک بیان میں امریکی سینٹرل کمانڈ نے کہا کہ یہ تعیناتی ’خطے میں سمندری ٹریفک کی روانی کو بہت بہتر بنانے میں مدد دے گی۔‘
بیان میں بحری جہازوں کا نام نہیں بتایا گیا تاہم امریکی حکام نے فوجیوں کی نقل و حرکت پر بات نہ کرنے کی شرط پر تعیناتی میں شامل یونٹوں کی تفصیل فراہم کی۔
باتان کے ساتھ اس گروپ میں دو دیگر جنگی بحری جہاز یو ایس ایس میسا وردے اور یو ایس ایس کارٹر ہال بھی شامل ہیں۔ اس گروپ نے رواں ماہ کے آغاز میں ورجینیا کے علاقے نارفولک کے سمندر سے سفر شروع کر دیا تھا۔
جمعرات تک یہ واضح نہیں کہ آیا تینوں بحری جہاز خلیجی خطے میں ہی رہیں گے۔
ان جنگی بحری جہازوں کو خطے میں بھیجنے کے اعلان سے قبل حالیہ ہفتوں میں امریکی بحری جہاز یو ایس ایس تھامس ہڈنر اور متعدد ایف 35 اور ایف 16 لڑکا طیارے بھی خطے میں بھیجے گئے ہیں۔
ایرانی سرگرمیوں کے جواب میں کئی ہفتوں سے اس علاقے میں امریکی اے 10 لڑاکا طیارے بھی موجود ہیں۔
ایران نے رواں ماہ کے اوائل میں آبنائے ہرمز کے قریب دو آئل ٹینکرز کو قبضے میں لینے کی کوشش کی تھی جبکہ ان میں سے ایک پر فائر بھی کھول دیا تھا۔
لڑاکا طیاروں کا مقصد آبی گزرگاہ کو استعمال کرنے والے تجارتی بحری جہازوں کو فضا سے تحفظ فراہم کرنا اور ایران کے لیے رکاوٹ کے طور پر علاقے میں فوج کی موجودگی کو بڑھانا ہے۔
سینٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل ایرک کوریلا نے کہا کہ اضافی فورسز ’خطے میں ہمارے شراکت دار ممالک اور بین الاقوامی تجارت کے آزادانہ بہاؤ کو مزید تحفظ فراہم کرتی ہیں اور عالمی قوانین پر مبنی بین الاقوامی نظام کو برقرار رکھتی ہیں، اور خطے میں ایرانی عدم استحکام کی سرگرمیوں کو روکتی ہیں۔‘
90