پاکستان کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف دائر درخواستوں پر سماعت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر ملک میں مارشل لا لگا تو مداخلت کریں گے۔
جمعے کو چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں چھ رکنی لارجر بینچ کے سامنے اٹارنی جنرل منصور عثمان نے اپنے دلائل میں کہا کہ ملٹری کورٹس میں ٹرائل کے دوران ملزم کسی لیگل ایڈوائزر سے مشاورت کر سکتا ہے۔
اٹارنی جنرل منصور عثمان نے مزید بتایا کہ ملزم کی کسٹڈی لینے کے بعد شواہد کی سمری تیار کر کے چارچ کیا جاتا ہے اور الزمات بتا کر شہادتیں ریکارڈ کی جاتی ہیں، اگر کمانڈنگ افسر شواہد سے مطمئن نہ ہو تو چارچ ختم کر دیا جاتا ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ ملزم کو بھی چوائس دی جاتی ہے کہ وہ اپنا بیان ریکارڈ کروا سکتا ہے۔
اس موقع پر چیف جسٹس نے کہا کہ ملزمان کو اپنے دفاع کے لیے فوجی عدالتوں میں بہت کم وقت دیا جاتا ہے۔
اٹارنی جنرل نے بتایا کہ آرمی ایکٹ کے تحت ٹرائل میں بھی فیصلہ کثرت رائے سے ہوتا ہے اور سزائے موت کی صورت میں فیصلہ دو تہائی سے ہونا لازمی ہے۔
71